اس بار چار سو پارانتخابی نعرہ
"اس بار چار سو پار” کے دھانسو نعرے کے ساتھ انتخابی معرکے میں اترنے والی مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کا اعتماد اور عزائم! بھارتی آئین کے بنیادی پتھر کو پلٹنے کا ہے۔ دنیا کی سب سے جمہوریت! اکثریت کی مذہبی بنیاد پرستی اور exclusiveness کے راستے پر سرپٹ دوڑتی اپنے روایتی، سیکولر، لبرل تشخص کی مخالف سمت میں بہت دور نکل گئی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ 70 فیصد بھارتیوں کے مطابق "بھارت تمام بھارتیوں کا ہے” جیسے خوشنما دعوے کے باوجود سیاسی اور سماجی منظر نامہ بھارتی مذہبی اقلیتوں کے لیے حوصلہ افزا نہیں ہے۔
1952 سے 1964 تک جواہر لعل نہرو کے تین بار وزارت عظمیٰ جیتنے کے تاریخ ساز ریکارڈ کو برابر کرنے کے لیے، 2024 میں لوک سبھا الیکشن میں کمر کسے مودی اتحاد کی جیت کے واضح امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔
سات مرحلوں پر مشتمل انتخابی دنگل
سات مرحلوں پر مشتمل انتخابی دنگل میں بی جے پی اور اتحادی ( این ڈی اے) کے مقابل کانگریس، عام آدمی پارٹی اور دیگر علاقائی جماعتوں کے 27 جماعتی اتحاد ( INDIA) کی تشکیل، بذات خود مودی اور ہندوتوا سیاست کی طاقتور پیش قدمی کا ثبوت ہے۔
اگرچہ دو تہائی اکثریت کے راستے میں مودی سرکار کے گزشتہ دو ادوار کے دوران بے روزگاری اور مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح حائل ہے، مگر اس کے توڑ کے لیے بے جے پی کا زیر آلود مذہبی انتہا پسندانہ پرچار خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانیہ آج بھی سب سے زیادہ بکنے والا چورن ہے۔
معدوم ہوتی سیکولر لبرل جمہوری شناخت
دنیا بھر میں جمہوری قدروں اور رجحانات پر گہری نظر رکھتے والے تھنک ٹینکس اور آرگنائزیشنز بی جے پی کی مسلسل تیسری کامیابی کی صورت میں بھارت کی تیزی سے معدوم ہوتی سیکولر لبرل جمہوری شناخت کے بارے سوال اٹھا رہے ہیں۔ یہاں بھارتی آئین میں کسی بھی امکانی تبدیلی کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے( آرٹیکل 370) اور (CAA) سیٹزن شپ ترمیمی ایکٹ کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
968 ملین سے زائد ووٹرز
موجودہ بھارتی انتخابی دنگل میں تقریبا 968 ملین سے زائد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی رائیٹرز کے مطابق ووٹرز کی یہ تعداد امریکہ، یورپین یونین اور روس کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔
ان انتخابات کو جدید جمہوری تاریخ کے سب سے بڑی الیکشن ایکسرسائز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جس کے دوران لوئر ہاؤس یعنی لوک سبھا کی 558 سیٹوں پر انتخابات کے سات راونڈز میں سے پہلا 19 اپریل کو مکمل ہو چکا ہے، جس میں 21 اسٹیٹس اور territories کی 102 نشستوں پر 60 فیصد کی شرح سے ووٹ ڈالے گئے۔ جبکہ الیکشن کے مجموعی حتمی نتائج کا اعلان 4 جون کو ہو گا۔
بی جے پی کو شدید مزاحمت
دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں حسب توقع ممتا بنرجی کے ویسٹ بنگال اور تامل ناڈو میں بی جے پی کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے، وہیں مودی مخالف اتحاد کی سب سے بڑی حریف، نہرو، اندرا گاندھی اور راہول گاندھی کی کانگریس کے ہندی بیلٹ سے اکھڑتے قدم اس کی پتلی حالت کا پتہ دیتے ہیں۔
بی جے پی اور مودی، اپنی طاقت برہمنوں سمیت اونچی جاتی، اپر اور مڈل کلاس ورکنگ ایلیٹس، میڈیا اور کارپوریٹ انڈیا کے بڑے کھلاڑیوں سے اخذ کرتے ہیں۔ یہاں اس حقیقت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ مودی سرکار کی گزشتہ دو ٹرمز کے دوران بھارت کی عالمی پزیرائی (جی 20 سمٹ اور SCO کی میزبانی) اور معاشی ترقی کی رفتار نے ہندو بنیاد پرستی اور بھارتی آزاد خیال سیکولر جمہوریہ کو جیسے سنگین چیلنجز کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔
علاقائی بالادستی کے دعوے دار بھارت کا اگلا ہدف دنیا کی طاقتور معاشی اور دفاعی طاقتوں کی صف اول میں کھڑا ہونا ہے۔ جہاں ایک جانب بھارتیہ جنتا پارٹی کو ویسٹ بنگال اور تامل ناڈو میں شدید مزاحمت کا سامنا ہے وہیں مرکز میں راہول گاندھی کی کانگریس کے ہندی بیلٹ سے اکھڑے قدم اس کی پتلی حالت کا پتہ دیتے ہیں۔
بھارتی انتخابات اور پاکستان
بھارتی انتخابات کے نتائج جہاں اس خطے میں پاکستان سمیت دیگر ہمسائیہ ممالک پر اثر انداز ہونگے وہیں بین الاقوامی سطح پر بھی بھارتی پیش قدمی کو نئی جہتیں اور توانائی سے ہم کنار کریں گے۔
شہباز شریف کی قیادت میں کمزور معاشی اور سیاسی طور پر غیر مستحکم پاکستان کے لیے، لگاتار تیسری بار بھاری اکثریت سے انتخابات جیت کر سرکار بنانے والے نریندرا مودی کو رجھانا آسان نہیں ہو گا۔ صورت حال کتنی ہی نا خوشگوار کیوں نہ ہو! دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان حائل آئس برگ کو ضرب لگانے میں پہل پاکستان کو ہی کرنا پڑے گی۔
تحریر : نسیم اکرم
انگریزی میں پڑھیں
1 thought on “بھارتی لوک سبھا انتخابات! امکانات اور خدشات”