پاکستان کی 26ویں آئینی ترمیم: قانونی نظام پر اہم تبدیلیاں اور ان کے اثرات

پاکستان کی 26ویں آئینی ترمیم کو اتوار کی شام سینیٹ نے دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا ، جس کے بعد قومی اسمبلی (NA) میں بھی بل کی منظوری کے لیے اجلاس جاری ہے۔ یہ ترمیم عدالتی عمل کو تبدیل کرنے، وفاقی آئینی عدالت کے قیام، اور ججوں، پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے کردار کو نئے سرے سے متعین کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس ترمیم کو حکومت نے "آئینی پیکیج” کے طور پر متعارف کرایا، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کلیدی کردار ادا کیا۔

26ویں آئینی ترمیم کی اہم خصوصیات

  1. وفاقی آئینی عدالت کا قیام:
    وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی، جس کے جج صدر مقرر کریں گے۔ یہ عدالت وفاقی اور صوبائی معاملات سمیت بنیادی حقوق سے متعلق مقدمات کی سماعت کرے گی۔
  2. عدالتی تقرریاں اور مدت:
    سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کر دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کی مدت ملازمت کو تین سال مقرر کیا گیا ہے جبکہ وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہوگی۔
  3. سپریم کورٹ کے اختیارات کی منتقلی:
    آئین کے آرٹیکل 190 کے تحت سپریم کورٹ کے احکامات جاری کرنے کا اختیار وفاقی آئینی عدالت کو منتقل کیا جائے گا۔
  4. پارلیمنٹ کا کردار:
    آئینی ترمیم میں پارلیمنٹ کے کردار کو بڑھایا گیا ہے، جس کا مقصد چارٹر آف ڈیموکریسی کے اصولوں کے مطابق توازن قائم کرنا ہے۔
  5. فوجی قوانین:
    موجودہ فوجی قوانین کو آئینی ترمیم کے بغیر تبدیل نہیں کیا جا سکے گا، جس سے ان قوانین میں تبدیلی کے لیے مزید قانونی مراحل کی ضرورت ہوگی۔

بلاول بھٹو زرداری اور JUI-F کا کردار

بلاول بھٹو زرداری نے 26ویں آئینی ترمیم کو کامیاب بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بلاول نے JUI-F کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور اسے ایک تاریخی کامیابی قرار دیا۔

سینیٹ اور قومی اسمبلی میں منظوری

سینیٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں 65 ووٹ پڑے، جبکہ چار اراکین نے مخالفت کی۔ بل کو قومی اسمبلی میں بھی پیش کیا گیا، جہاں اس کے منظور ہونے کے لیے 224 ووٹ درکار ہیں۔

26th Constitutional Amendment Bill by shahzeb ahmed on Scribd

سیاسی ردعمل

  • حکومتی اتحاد:
    PPP، PML-N، اور JUI-F کے رہنما اس ترمیم کو عدلیہ میں اصلاحات کی جانب ایک اہم قدم قرار دیتے ہیں۔
  • PTI کی تنقید:
    PTI کے رہنما عمر ایوب خان نے اس ترمیم کو عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرہ قرار دیا اور اس عمل کو غیر آئینی قرار دیا۔
  • عوامی ردعمل:
    سوشل میڈیا پر ردعمل ملا جلا رہا، کچھ لوگوں نے پارلیمنٹ کی بالا دستی کی بحالی کے لیے اس کی تعریف کی جبکہ کچھ نے عدلیہ کی سیاسی حیثیت کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔

قانونی نظام پر اثرات

26ویں آئینی ترمیم پاکستان کے عدالتی نظام میں درج ذیل تبدیلیاں لائے گی:

  1. عدلیہ کی آزادی پر سوالات:
    نقادوں کے مطابق، ترمیم کے نتیجے میں عدلیہ کی آزادی میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
  2. پارلیمانی اختیار میں اضافہ:
    ترمیم کے نتیجے میں پارلیمنٹ کا کردار بڑھ جائے گا، جو چارٹر آف ڈیموکریسی کے اصولوں کے مطابق ہے۔
  3. طویل مدتی اصلاحات:
    حامیوں کا کہنا ہے کہ ترمیم عدالتی کارکردگی میں بہتری اور چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو مزید مؤثر بنانے کے لیے مددگار ثابت ہوگی۔

اختتام

پاکستان کی 26ویں آئینی ترمیم ایک اہم تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہے۔ جبکہ اس کا مقصد پارلیمنٹ کی بالا دستی کو بحال کرنا اور عدالتی اختیارات کو متوازن کرنا ہے، اس کے عدلیہ کی آزادی پر ممکنہ اثرات پر بحث جاری ہے۔ آنے والے دن اس ترمیم کے عملی اثرات کو مزید واضح کریں گے۔

1 thought on “پاکستان کی 26ویں آئینی ترمیم: قانونی نظام پر اہم تبدیلیاں اور ان کے اثرات”

Leave a Comment