پاکستان میں کوٹہ سسٹم، جو کہ اصل میں پسماندہ طبقات کو اوپر لانے اور مواقع فراہم کرنے کے لئے نافذ کیا گیا تھا، اب ایک متنازعہ اور نقصان دہ پالیسی بن چکا ہے۔ اس کی مسلسل موجودگی نے معاشرے کے بنیادی اصولوں جیسے میرٹ اور اہلیت کو بری طرح متاثر کیا ہے، خاص طور پر سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں۔
حالیہ دنوں میں، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر کوٹہ سسٹم کو مزید 20 سال تک بڑھایا گیا تو وہ پارلیمنٹ سے مستعفی ہو جائیں گے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سینیئر رہنماؤں نے عوامی تقریب میں اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اس فیصلے کو غیر منصفانہ قرار دیا اور کہا کہ اس سے عوام میں مزید بے چینی پیدا ہوگی، جو پہلے ہی اپنے حقوق سے محروم ہیں۔
کوٹہ سسٹم: میرٹ کا قتل یا پسماندہ طبقے کی حوصلہ افزائی؟
کوٹہ سسٹم اصل میں یہ یقینی بنانے کے لئے لایا گیا تھا کہ محروم طبقات کو سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں یکساں مواقع مل سکیں۔ لیکن، وقت کے ساتھ ساتھ، یہ ایک ایسا آلہ بن چکا ہے جو میرٹ کی بجائے سیاست اور ناانصافی کو فروغ دے رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس نظام کو مزید 20 سال تک جاری رکھنے کا مطلب ہے کہ ہزاروں قابل افراد کو ایک طرف کر دینا اور ان کی محنت اور قابلیت کو نظر انداز کرنا۔ اس قسم کی پالیسی قوم کی مجموعی ترقی پر منفی اثرات ڈال سکتی ہے، اور پہلے سے ہی بے روزگاری اور دماغی صلاحیتوں کے ضیاع جیسے مسائل کا شکار ملک کے لئے یہ ایک بڑا دھچکا ہے۔ میرٹ کی بجائے کوٹہ سسٹم پر عمل کرنا حالات کو مزید خراب کرنے کا سبب بنے گا۔
کراچی پر اثرات: ایک کیس اسٹڈی
یہ مسئلہ کراچی میں مزید سنگین ہو چکا ہے، جو پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی اور تعلیمی مرکز ہے۔ ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما مصطفیٰ کمال نے حالیہ تقریب میں پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل-ن) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے کوٹہ سسٹم کو بڑھانے سے شہریوں میں مزید بے چینی پیدا کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا: "اسمبلی میں رہنے کا کیا فائدہ اگر ہم اپنے لوگوں کے حقوق دلوانے میں ناکام ہو جائیں؟” مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی نے پی ایم ایل-ن کی حکومت کو مسلسل 4 ماہ تک غیر مشروط تعاون فراہم کیا، لیکن ان کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس فیصلے نے کراچی کی نوجوان نسل کو شدید مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے۔
میرٹ کو نظر انداز کرنے کے خطرناک نتائج
جب کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر نوکریاں اور مواقع دیئے جاتے ہیں، تو اس سے غیر مستحق افراد کو ذمہ داری مل جاتی ہے، جو ملک کے اہم شعبوں جیسے صحت، تعلیم، اور پبلک ایڈمنسٹریشن میں تباہ کن نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف قابل افراد کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، بلکہ ان میں مایوسی بھی پیدا ہوتی ہے اور وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
حکومت کے لئے سوچنے کا وقت
ایم کیو ایم نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ جب تک میرٹ پر مبنی پالیسیاں نہیں لائی جاتیں، ان کے لئے پارلیمنٹ میں رہنا بے معنی ہے۔ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ "ہم نے آپ (پی ایم ایل-ن) سے معاہدہ کیا تھا، پیپلز پارٹی سے نہیں۔” ان کا کہنا تھا کہ پی ایم ایل-ن کو اپنی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی اور اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
نتیجہ: میرٹ کو اولیت دی جائے
کوٹہ سسٹم اپنے مقصد کو پورا کرنے میں ناکام ہو چکا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت ان پالیسیوں کو دوبارہ سے دیکھے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا، تو اس کے نتائج ہمیں دہائیوں تک بھگتنے پڑیں گے۔ پاکستان کے نوجوان، جو ملک کا مستقبل ہیں، کو میرٹ کے اصولوں کے مطابق مواقع ملنے چاہییں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
اگر آپ بھی اس بات سے متفق ہیں کہ میرٹ کو فروغ دینا چاہئے، تو اس مسئلے کو مزید اجاگر کرنے کے لئے اس بلاگ کو شئیر کریں اور اپنے خیالات کا اظہار کریں۔